پرانے گھر کو گرایا تو باپ رونے لگا
Poet: شہزاد قیس By: Hassan, Sialkotپرانے گھر کو گرایا تو باپ رونے لگا
خوشی نے دل سا دکھایا تو باپ رونے لگا
جو امی نہ رہیں تو کیا ہوا کہ ہم سب ہیں
جواب بن نہیں پایا تو باپ رونے لگا
یہ رات کھانستے رہتے ہیں کوفت ہوتی ہے
بہو نے سب میں جتایا تو باپ رونے لگا
بٹھا کے رکشے میں کل شب روانہ کرتے ہوئے
دیا جو میں نے کرایہ تو باپ رونے لگا
ہمیں بنا دئے کمرے خود اس کو ٹی وی پر
مدینہ جب نظر آیا تو باپ رونے لگا
کل اس کے دوست کو باہر سے ٹالنے کے بعد
اسے فقیر بتایا تو باپ رونے لگا
بہن روانگی سے پہلے پیار لینے گئی
جو کچھ بھی دے نہیں پایا تو باپ رونے لگا
کیا ہی کیا ہے بھلا آج تک ہمارے لیے
سوال جوں ہی اٹھایا تو باپ رونے لگا
طبیب کہتا تھا پاگل کو کچھ بھی یاد نہیں
گلے سے میں نے لگایا تو باپ رونے لگا
نہ جانے قیسؔ نے کس جذبے سے یہ کیا لکھا
کہ جوں ہی پڑھ کے سنایا تو باپ رونے لگا






