پردہ چہرے سے اٹھا ، انجمن آرائي کر
چشم مہر و مہ و انجم کو تماشائي کر
تو جو بجلي ہے تو يہ چشمک پنہاں کب تک
بے حجابانہ مرے دل سے شناسائي کر
نفس گرم کي تاثير ہے اعجاز حيات
تيرے سينے ميں اگر ہے تو مسيحائي کر
کب تلک طور پہ دريوزہ گرمي مثل کليم
اپني ہستي سے عياں شعلہ سينائي کر
ہو تري خاک کے ہر ذرے سے تعمير حرم
دل کو بيگانہ انداز کليسائي کر
اس گلستاں ميں نہيں حد سے گزرنا اچھا
ناز بھي کر تو بہ اندازئہ رعنائي کر
پہلے خوددار تو مانند سکندر ہو لے
پھر جہاں ميں ہوس شوکت دارائي کر
مل ہي جائے گي کبھي منزل ليلي اقبال!
کوئي دن اور ابھي باديہ پيمائي کر