جب ہوگا ہم پہ شہنشاہِ ذوالمنن کا فیض
تبھی ملے گا ہمیں خلد کے چمن کا فیض
رواں دواں ہے رگوں میں جو خونِ وحدت آج
بلاشبہہ ہے یہ حضراتِ پنجتن کا فیض
ہے جن کو نکہتِ زلفِ نبی سے آگاہی
وہ کچھ نہ چاہیں گے بے شک کبھی ختن کا فیض
اندھیری قبر اُجالوں سے میری بھر جائے
جو جلوہ گر ہو رُخِ شاہِ ذوالمنن کا فیض
جہاں میں مدحتِ سرکار ہر سو جاری ہے
کہ بڑھتا جاتا ہے اب نعت کے چلن کا فیض
جنابِ نظمی ہیں حسّانِ عصرِ حاضر ایک
ہے مجھ پہ سایا فگن اُن کے فکر و فن کا فیض
جو نعت لکھنے کا فن مِل گیا مُشاہدؔ کو
رضاؔ و نوریؔ کا ہے اور ہے حسنؔ کا فیض