ہجوم کشمکش میں آدمی گھبرا ہی جاتا ہے
پڑے مشکل تو جینے کا سلیقہ آہی جاتا ہے
اگر کا بیج بونے سے شجر شک کا ہی اگتا ہے
محبت کے ثمر سے پیشتر مرجھا ہی جاتا ہے
کبھی آنکھوں سے رستا ہے یہ زخم دل لہو بنکر
کبھی یہ خوف بنکر روح کو دہلا ہی جاتا ہے
شب تنہائ میں سجتی ہیں دل کی محفلیں اکثر
کوئ بھولا ہوا یادوں میں اپنی چھا ہی جاتا ہے
وہ مجھ کو ایسے چھوتا ہے کہ میں گلنار ہوتی ہوں
کبھی یوں ہی میرے جذبات وہ دہکا بھی جاتا ہے
وہ مجھ سے فون پر کرتا ہے گھنٹوں پیار کی باتیں
مگر جب سامنے ہوتا ہے تو اکتا ہی جاتا ہے
ہواؤں میں اچھالے دیکھ کے ہم نے کئ سکے
نصیبوں کا لکھا یوں ذہن سے ٹالا ہی جاتا ہے
یہاں چہرے سجا کے رکھے ہیں ہر ایک چہرے نے
فریب زندگی انسان اکثر کھا ہی جاتا ہے