پھر آس دے کے آج کو کل کر دیا گیا
ہونٹوں کے بیچ بات کو شل کر دیا گیا
صدیوں کا پھوک جسم سنبھالے تو کس طرح
جب عمر کو نچوڑ کے پل کر دیا گیا
اب تو سنوارنے کے لیے ہجر بھی نہیں
سارا وبال لے کے غزل کر دیا گیا
مجھ کو مری مجال سے زیادہ جنوں دیا
دھڑکن کی لے کو ساز اجل کر دیا گیا
کیسے بجھائیں کون بجھائے بجھے بھی کیوں
اس آگ کو تو خون میں حل کر دیا گیا