پھر باد بہار آئي ، اقبال غزل خواں ہو
غنچہ ہے اگر گل ہو ، گل ہے تو گلستاں ہو
تو خاک کي مٹھي ہے ، اجزا کي حرارت سے
برہم ہو، پريشاں ہو ، وسعت ميں بياباں ہو
تو جنس محبت ہے ، قيمت ہے گراں تيري
کم مايہ ہيں سوداگر ، اس ديس ميں ارزاں ہو
کيوں ساز کے پردے ميں مستور ہو لے تيري
تو نغمہ رنگيں ہے ، ہر گوش پہ عرياں ہو
اے رہرو فرزانہ! رستے ميں اگر تيرے
گلشن ہے تو شبنم ہو، صحرا ہے تو طوفاں ہو
ساماں کي محبت ميں مضمر ہے تن آساني
مقصد ہے اگر منزل ، غارت گر ساماں ہو