پھر سے دید و شنید ہو جائے
دل سراپا اُمید ہو جائے
دُور ہوتا گیا ہے وہ ہم سے
جیسے ماضی بعید ہو جائے
اُس کی قسمت پہ رشک جو اپنی
جستجو میں شہید ہو جائے
تار بن کر تڑپ اُٹھے ہستی
درد ایسا شدید ہو جائے
آپ کہتے ہیں دل نہیں دیں گے
بات اِس پر مزید ہو جائے؟
حشر تک انتظار کر لیں گے
کوئی وعدہ وعید ہو جائے
زخم دیتے ہوئے کہا اُن نے
عاشقی کی رسید ہو جائے؟
گر بڑھا دیں وہ ہاتھ بیعَت کو
سخت کافر مُرید ہو جائے
لے کے نکلیں وہ ہاتھ میں خنجر
جانثاروں کی عید ہو جائے
شانِ ماضی پہ بیٹھنے والو
ذکرِ عہدِ جدید ہو جائے؟
آنکھ ہو تو حقیقتِ ہستی
چشمِ نم سے کشید ہو جائے
کیا خبر ہے مُنیبؔ تاریکی
صبحِ نو کی نوید ہو جائے
(ساتویں شعر میں "اُن نے" شوقیہ استعمال کیا ہے، کلاسیکی شعراء کی یاد میں)