پھر لوٹ کر گئے نہ کبھی دشت و در سے ہم
نکلے بس ایک بار کچھ اس طرح گھر سے ہم
کچھ دور تک چلے ہی گئے بے خبر سے ہم
اے بے خودیٔ شوق یہ گزرے کدھر سے ہم
آزاد بے نیاز تھے اپنی خبر سے ہم
پلٹے کچھ اس طرح سے دکن کے سفر سے ہم
قلب و نظر کا دور بس اتنا ہی یاد ہے
وہ اک قدم ادھر سے بڑھے تھے ادھر سے ہم
اے کاش یہ صدا بھی کبھی کان میں پڑے
اٹھو کہ لوٹ آئے ہیں اپنے سفر سے ہم
دل کا چمن ہے کیف بہاراں لیے ہوئے
گزرے تھے ایک بار تری رہگزر سے ہم
آتا ہے اک ستارہ نظر چاند کے قریب
جب دیکھتے ہیں خود کو تمہاری نظر سے ہم
اس سے زیادہ دور جنوں کی خبر نہیں
کچھ بے خبر سے آپ تھے کچھ بے خبر سے ہم
جتنی بھی رہ گئی تھی کمی دل کے درد میں
اتنا ہی لٹ گئے ہیں متاع نظر سے ہم
روز ازل سے اپنی جبیں میں تڑپ رہی
وابستہ یوں رہے ہیں ترے سنگ در سے ہم