پھولوں کی طرح لب کھول کبھی
Poet: گلزار By: نعمان علی, Quettaپھولوں کی طرح لب کھول کبھی
خوشبو کی زباں میں بول کبھی
الفاظ پرکھتا رہتا ہے
آواز ہماری تول کبھی
انمول نہیں لیکن پھر بھی
پوچھ تو مفت کا مول کبھی
کھڑکی میں کٹی ہیں سب راتیں
کچھ چورس تھیں کچھ گول کبھی
یہ دل بھی دوست زمیں کی طرح
ہو جاتا ہے ڈانوا ڈول کبھی
More Gulzar Poetry
کھلی کتاب کے صفحے الٹتے رہتے ہیں کھلی کتاب کے صفحے الٹتے رہتے ہیں
ہوا چلے نہ چلے دن پلٹتے رہتے ہیں
بس ایک وحشت منزل ہے اور کچھ بھی نہیں
کہ چند سیڑھیاں چڑھتے اترتے رہتے ہیں
مجھے تو روز کسوٹی پہ درد کستا ہے
کہ جاں سے جسم کے بخیے ادھڑتے رہتے ہیں
کبھی رکا نہیں کوئی مقام صحرا میں
کہ ٹیلے پاؤں تلے سے سرکتے رہتے ہیں
یہ روٹیاں ہیں یہ سکے ہیں اور دائرے ہیں
یہ ایک دوجے کو دن بھر پکڑتے رہتے ہیں
بھرے ہیں رات کے ریزے کچھ ایسے آنکھوں میں
اجالا ہو تو ہم آنکھیں جھپکتے رہتے ہیں
ہوا چلے نہ چلے دن پلٹتے رہتے ہیں
بس ایک وحشت منزل ہے اور کچھ بھی نہیں
کہ چند سیڑھیاں چڑھتے اترتے رہتے ہیں
مجھے تو روز کسوٹی پہ درد کستا ہے
کہ جاں سے جسم کے بخیے ادھڑتے رہتے ہیں
کبھی رکا نہیں کوئی مقام صحرا میں
کہ ٹیلے پاؤں تلے سے سرکتے رہتے ہیں
یہ روٹیاں ہیں یہ سکے ہیں اور دائرے ہیں
یہ ایک دوجے کو دن بھر پکڑتے رہتے ہیں
بھرے ہیں رات کے ریزے کچھ ایسے آنکھوں میں
اجالا ہو تو ہم آنکھیں جھپکتے رہتے ہیں
سلمان علی
تجھ کو دیکھا ہے جو دریا نے ادھر آتے ہوئے تجھ کو دیکھا ہے جو دریا نے ادھر آتے ہوئے
کچھ بھنور ڈوب گئے پانی میں چکراتے ہوئے
ہم نے تو رات کو دانتوں سے پکڑ کر رکھا
چھینا جھپٹی میں افق کھلتا گیا جاتے ہوئے
میں نہ ہوں گا تو خزاں کیسے کٹے گی تیری
شوخ پتے نے کہا شاخ سے مرجھاتے ہوئے
حسرتیں اپنی بلکتیں نہ یتیموں کی طرح
ہم کو آواز ہی دے لیتے ذرا جاتے ہوئے
سی لیے ہونٹ وہ پاکیزہ نگاہیں سن کر
میلی ہو جاتی ہے آواز بھی دہراتے ہوئے
کچھ بھنور ڈوب گئے پانی میں چکراتے ہوئے
ہم نے تو رات کو دانتوں سے پکڑ کر رکھا
چھینا جھپٹی میں افق کھلتا گیا جاتے ہوئے
میں نہ ہوں گا تو خزاں کیسے کٹے گی تیری
شوخ پتے نے کہا شاخ سے مرجھاتے ہوئے
حسرتیں اپنی بلکتیں نہ یتیموں کی طرح
ہم کو آواز ہی دے لیتے ذرا جاتے ہوئے
سی لیے ہونٹ وہ پاکیزہ نگاہیں سن کر
میلی ہو جاتی ہے آواز بھی دہراتے ہوئے
راحیل






