پیار کرکے ہی دکھایا ہے
اس کو اپنے گلے لگایا ہے
تھی پرانی ہی یاری اپنی تو
جب میں رویا وہ مسکرایا ہے
طنطنہ آج ہے وہی اس کا
دیکھ کے آج آ ز مایا ہے
ہوئی مدت ہے مل نہیں پایا
اس نے دیدار اب کرایا ہے
پیار دل میں گیا ہے بڑھ ایسے
پھول زلفوں میں جب سجایا ہے
میرے چھونے لگا ہے لمس ہی وہ
دست الفت یہ جب بڑھایا ہے
آج مدت کے بعد آیا نظر
دیکھ کے مجھ کو وہ چلایا ہے
جس کو پانی سمجھ کے پی گیا ہوں
زہر اس نے مجھے پلایا ہے
آیا ملنے نہیں کبھی وہ مجھے
جب کبھی پیار سے بلایا ہے
آج اس نے کی بے وفائی جو
میری شہزاد ماں کا جایا ہے