ہر محفل میں اپنی شاعری سنائے جاتا ہوں
ایسے میں ہر کسی کو ستائے جاتا ہوں
آستیں میں کوئی سانپ چھپا بیٹھا نہ ہو
ہر پل پیار کی بین بجائے جاتا ہوں
ان دنوں بہت لوگ مجھ سے خفا ہیں
ایسے لوگوں کے ادھار چکائے جاتا ہوں
دنیا بھر کے غم اپنی جھولی میں ڈال کر
اب غم مجھے اور میں انہیں کھائے جاتا ہوں
وہ مجھ سے بات نہیں کرتا تو کیا
میں اس کی باتوں میں ٹانگ اڑائے جاتا ہوں
اصغرکی آواز سنتے ہی وہ فون پٹخ دیتا ہے
ہمت نہ ہارتے ہوئے نمبر ملائے جاتا ہوں