نہاری کھائی تو
دل میں آیا
بریانی کھانی ضرور ہے
قورمہ اور کڑاھی بھی کھایا
پھر بھی نیت میں
فطور ہے
سب کچھ کھایا پر
سکون ناں پایا
کباب اور روسٹ بھی
سرور ہے
کوفتوں پے ہاتھ مارا
نانوں کا تندور ہے
یہ بھی کھاؤ وہ بھی کھاؤ
پر مٹن مجبور ہے
سب کچھ کھایا تو یاد آیا
چکن تو آنکھوں کا نور ہے
حلیم کی ہے تازگی
اور تکوں کا انبار ہے
چرغہ ہم کو تک رہا ہے
پلاؤ بھی بیقرار ہے
اور بتاؤ کیا ہم کھائیں
پیٹ ہے اب تک سوگوار
میٹھے میں حلوہ اور زردہ
ہم کو بلائے بار بار
کھیر اور کسٹرڈ کا مزہ بھی
چکھ لو میرے یار
پر دوستوں وعدہ کرو
میری بیوی سے اس کھانے
کا ناں ذکر ہو
ورنہ رات کا ناں کھانا ملیگا
سونا پڑے گا بھوکا یار