چادر میں اپنی درد کے موسم لیے ہوئے
ہم کو ملی حیات بھی سو غم لیے ہوئے
ہوتی ہے یوں تلافیِ مافات دوستو؟
آئے ہیں میری قبر پہ مرہم لیے ہوئے
ہم کو بھی ایک بار تَو جنت مِلے ضرور
ہم بھی ہیں ذوقِ لغزشِ آدم لیے ہوئے
ٹوپی اتار پھینکِئے، دنیا میں شیخ جی،
پھرتے نہیں ہیں زُہد کا پرچم لیے ہوئے
اہلِ جہاں کی خیر ہو یا رب کہ آج وہ
نکلے ہیں گھر سے اَبروِ برہم لیے ہوئے
منزل کو ہر قدم پہ تھا ذوقِ فراق پیش
ہم بھی چلے تھے جذبہِ پیہم لیے ہوئے
بیتی ہے اِن پہ شب میں کیا، کیا جانِئے مُنیبؔ
بیٹھے ہیں پھول آنکھ میں شبنم لیے ہوئے