چار سو انتشار ہے کیا ہے
یہ خزاں ہے بہار ہے کیا ہے
سب کو مشکوک تم سمجھتے ہو
خود پہ بھی اعتبار ہے کیا ہے
سوا نیزے پہ چاہیے سورج
جسم میں برف زار ہے کیا ہے
مجھ کو منزل نظر نہیں آتی
دور تک رہ گزار ہے کیا ہے
کوئی آہٹ تلک نہیں ہوتی
میرے اندر مزار ہے کیا ہے
ایک پل بھی نہیں مرا اپنا
زندگانی ادھار ہے کیا ہے
میرے ہمدم ذرا بتا مجھ کو
یہ جوانی خمار ہے کیا ہے
ہے جو مجھ سے اسدؔ گریزاں سا
مصلحت کا شکار ہے کیا ہے