چاند پھر تاروں کی اجلی ریز گاری دے گیا
رات کو یہ بھیک کیسی خود بھکاری دے گیا
ٹانکتی پھرتی ہیں کرنیں بادلوں کی شال پر
وہ ہوا کے ہاتھ میں گوٹا کناری دے گیا
کر گیا ہے دل کو ہر اک واہمے سے بے نیاز
روح کو لیکن عجب سی بے قراری دے گیا
شور کرتے ہیں پرندے پیڑ کٹتا دیکھ کر
شہر کے دست ہوس کو کون آری دے گیا
اس نے گھائل بھی کیا تو کیسے پتھر سے نسیمؔ
پھول کا تحفہ مجھے میرا شکاری دے گیا