چاند کا خواب اجالوں کی نظر لگتا ہے
تو جدھر ہو کے گزر جائے خبر لگتا ہے
اس کی یادوں نے اگا رکھے ہیں سورج اتنے
شام کا وقت بھی آئے تو سحر لگتا ہے
ایک منظر پہ ٹھہرنے نہیں دیتی فطرت
عمر بھر آنکھ کی قسمت میں سفر لگتا ہے
میں نظر بھر کے ترے جسم کو جب دیکھتا ہوں
پہلی بارش میں نہایا سا شجر لگتا ہے
بے سہارا تھا بہت پیار کوئی پوچھتا کیا
تو نے کاندھے پہ جگہ دی ہے تو سر لگتا ہے
تیری قربت کے یہ لمحے اسے راس آئیں کیا
صبح ہونے کا جسے شام سے ڈر لگتا ہے