چراغِ نعتِ نبی سے سخن کو روشن کر
گُلِ درود کھلا حرف حرف گلشن کر
زباں سے صلِّی علےٰ کہنا ہی نہیں کافی
درودِ احمدِ مُرسل کو دل کی دھڑکن کر
یہی ہے جائے اماں، بے اماں زمانے میں
سوادِ خلقِ محمد کو اپنا مامن کر
وہ دل ، کہ عشقِ محمد سے جس پہ صیقل ہے
غبار وقت میں اُس دل کو اپنا درپن کر
انہیں کے نام کی نسبت رہے گی بس طارق
کرے، تو شافعِ محشر سے اپنا بندھن کر