چراغ بن کے تری راہ میں دھری تھی میں
جہاں پہ چھوڑ گئے تھے وہیں گڑی تھی میں
میں جیسے بھول گئی تھی کریم بھی ہے وہ
قہار ہونے سے اسکے بہت ڈری تھی میں
میں ان کے روضے پہ پہنچی تو وقت تھم تھا گیا
لگا کہ سینکڑوں سالوں سے یاں کھڑی تھی میں
جنوں جنوں میں پتہ ہی نہیں چلا مجھ کو
بغیر ناؤ کے پانی میں چل پڑی تھی میں
میں اپنے ہاتھ میں تیری لکیر کھینچتی تھی
ترے لیئے ہی مقدر سے جالڑی تھی مین
مجھے تو ماں کے بھی آنسو بہانے تھے شب میں
کہ بھائی بہنوں سے کچھ عمر میں بڑی تھی میں
پھر ایک روز مرے پر جلا دیئے گئے تھے
وگر نہ بابا کے آنگن میں اک پری تھی میں
ہر آتا جاتا مجھے محویت سے تکتا تھا
کہ جیسے وقت بتاتی کوئ گھڑی تھی میں