چشم بینا کیلے پردہ ہٹانا ہوگا
خاک مدینہ کو سرمہ بنانا ہو گا
اگر چاہے دو عالم کی کامرانی
انوار مدینہ سے خود کو چمکانا ہوگا
اگر طلب ہے کائناپ پہ چھانے کی
گنبد خضری کے سائے میں آنا ہوگا
اگر بجھانا چاہتے ہو ظلمت کی آگ
ابر مدینہ دشت عالم پہ برسانا ہوگا
اگر مٹانا چاہتے ہو یتیمی کا احساس
یتیموں کے والی کا بچپن دہرانا ہوگا
اگر خائف ہو ہجرت کے سانپوں سے
دامن غار ثور میں ایک بار جانا ہوگا
طفل شفقت سے ویراں ہے اگر قریہ آدم
حسنین کے بچپن کو چشم تخیل میں لانا ہوگا
اگر بھوک سے لرزیں ایمانوں کے ستون
بتول کے بابا کے گھر کو دیکھانا ہوگا
اگر اسیر ہو تخت شاھی کے قفس میں
منبر تاجدار عالم آنکھوں میں بسانا ہو گا
اگر مٹانا چاہتے ہو نا انصافی کے خیمے
پیغام منبر رصول پڑھ پڑھ کر سنانا ہو گا
اگر چاھے دنیا میں امن کی بہار
مدینے کی کلیوں سے آنگن سجانا ہوگا
ڈھونڈے بہت اصلاح کے متبادل راستے
منزل جس کیلے تڑپے اس گلی میں جانا ہوگا
بس کافی ہے میرے لیےشمع رسالت
جو روشنی نہ دیں ان دیوں کو بجھانا ہوگا
اس کے علاوہ کچھ نہیں خم گیسوئے حیات کے
آنے سے جانا اور پھر جانے سے آنا ہو گا
کوئی اور نہیں منزل در نبی کے بعد
سارے کچے گھروں کو اب گرانا ہوگا