چشم ساقی نے یہ کیا کھیل رچا رکھا ہے
کوئی زاہد تو کوئی مہ خار بنا رکھا ہے
جو بھنسا پھر نہ کبھی اس نے رہائی مانگی
تیری زلفوں نے عجب جال بچھا رکھا ہے
حسن ہو عشق ہو دونوں کا اثر یکساں ہے
چیز ہے ایک مگر نام جدا رکھا ہے
رخ پہ لہراتی ہیں کبھی شانوں سے اُلجھ پڑتی ہیں
تونے زلفوں کو بہت سر پہ چڑھا رکھا ہے
تیری مخمور نگاہوں سے ہے رونق ساری
ورنہ ساقی تیرے مہ خانے میں رکھا کیا ہے