نشاں حسرت کے سب کے سب دسمبر چھوڑ جائے گا
مجھے پورا یقیں ہے اب دسمبر چھوڑ جائے گا
مجھے موہوم سی امید تھی اک ساتھ رہنے کی
مگر دیکھو مجھے اس شب دسمبر چھوڑ جائے گا
تری یادوں میں مشکل سے مرا یہ سال گزرا ہے
تری یادوں کو پھر یہ اب دسمبر چھوڑ جائے گا
اگر چہ بھول جا ئے گا تری نظمیں ،،تری غزلیں
مگر کچھ گیت زیرِ لب دسمبر چھوڑ جائے گا
چلو وشمہ محبت کے لیے قربان ہو جائیں
نہ جانے کس سمے یہ کب دسمبر چھوڑ جائے گا