چلو کہ ہم بھی تو اقبال کے شجر جائیں
جہاں سے بھٹکی ہوئیں بلبلیں بھی گھر جائیں
ذرا سے خوف سے بولا اداس بلبل نے
اندھیری رات میں جگنو بتا کدھر جائیں
ہر ایک سمت یہاں ایک سی لگے اب تو
کہ لوٹ آئیں یہیں جس طرف جدھر جائیں
جو کھو گیا ہے اسے رات کی سیاہی میں
بتاؤ ڈھونڈنے اب اور کس نگر جائیں
بڑا طویل اکیلے میں یہ سفر ہوگا
کوئ جو ساتھ ملے ہم بھی راہ پر جائیں
ردائے نور ہے ہستی میں ناتواں جگنو
عطائے رب سے پتنگے بھی با ہنر جائیں
خدا نے بخشی ہوئ ہے جو روشنی مجھ کو
عجب نہیں کہ ترے کام سب سنور جائیں
حیا وہ لوگ یہاں دوسروں سے اچھے ہیں
جو اپنی خوبی زمانے کے نام کرجائیں