اک پل
آکاش اور دھرتی کو
اک دھاگے میں بن کر
رنگ دھنک اچھالے
دوجا پل
جو بھیک تھا پہلے کل کی
کاسے سے اترا
ماتھے کی ریکھا ٹھہرا
کرپا اور دان کا پل
پھن چکر مارا
گرتا ہے منہ کے بل
سلوٹ سے پاک سہی
پھر بھی
حنطل سے کڑوا
اترن کا پھل
الفت میں کچھ دے کر
پانے کی اچھا
حاتم سے ہے چھل
غیرت سے عاری
حلق میں ٹپکا
وہ قطرہ
سقراط کا زہر
نہ گنگا جل
مہر محبت سے بھرپور
نیم کا پانی
نہ کڑا نہ کھارا
وہ تو ہے
آب زم زم
اس میں رام کا بل
ہر فرزانہ
عہد سے مکتی چاہے
ہر دیوانہ عہد کا بندی
مر مٹنے کی باتیں
ٹالتے رہنا
کل تا کل
جب بھی
پل کی بگڑی کل
در نانک کے
بیٹھا بےکل
وید حکیم
ملاں پنڈٹ
پیر فقیر
جب تھک ہاریں
جس ہتھ میں وقت کی نبضیں
چل
محمد کے در پر چل