چنے ہوے لوگوں تو اپنے شمار کر دے۔
میری خطائیں بخش متقی پرھیزگار کر دے
کیوں دامن فہلائوں میں کسی اور کے آگے؟
اپنے غیب کے خزانوں سے سرشار کر دے۔
وہ جس کے عشق میں منصور چڑہا سولی !
ہمیں بھی اسکی چاھت میں گرفتار کر دے۔
کیوں در غیر کی غلامی کو دوں ترجیع ؟
اپنے در کا سگ بنا زندگی استوار کر دے۔
بہ روز محشر یار کی شفاعت عطا کر!
اس اسد نامراد کا تو بیڑہ پار کر دے