چور تھا زخموں سے دل زخمی جگر بھی ہو گیا
اس کو روتے تھے کہ سونا یہ نگر بھی ہو گیا
لوگ اسی صورت پریشاں ہیں جدھر بھی دیکھیے
اور وہ کہتے ہیں کوہ غم تو سر بھی ہو گیا
بام و در پر ہے مسلط آج بھی شام الم
یوں تو ان گلیوں سے خورشید سحر بھی ہو گیا
اس ستم گر کی حقیقت ہم پہ ظاہر ہو گئی
ختم خوش فہمی کی منزل کا سفر بھی ہو گیا