ڈوبتا صاف نظر آیا کنارہ کوئی دوست
پھر بھی کشتی سے نہیں ہم نے اتارا کوئی دوست
جب بھی نیکی کا کوئی کام کیا ہے ہم نے
دے دیا رب نے ہمیں آپ سے پیارا کوئی دوست
جیت پر خوش ہو تجھے اس سے غرض کیا مرے یار
تیری خوشیوں کے لئے جان سے ہارا کوئی دوست
کیسے جی پائیں گے اس شہر پریشاں میں جہاں
کوئی دشمن ہے ہمارا نہ ہمارا کوئی دوست
کچھ تو جینے کے لئے ہم کو بھی دے رب کریم
ساغر و مینا کسی غم کا سہارا کوئی دوست
روٹھ جائے مری آنکھوں سے بھلے بینائی
کاش روٹھے نہ وصیؔ آنکھ کا تارا کوئی دوست