ڈھانے ظُلم سے گُریز کر بس کر
کب تک رواں یوں برباد کرو گے
آواز گونجے گی ہر جگہ تیرے لیے
معلوم ہے اپنی ہے دُنیا آباد کرو گے
شکنجے میں مت ڈالیں غیروں کو
نہ جانے اور کتنوں کو برباد کرو گے
قدم نہ چلیں گے نشان مٹیں گے جب
دکھی انداز میں مجھے یاد کرو گے
ویراں میں آ کر قبر میں ڈھونڈو گے
میری بستی سے وابستہ کلام کرو گے
ڈھاتے تھے ظُلم و ستم کتنے مجھ پر
ہر لمحہ ساحل~ کو اُستاد کرو گے