ڈھونڈ رہا ہے فرنگ عيش جہاں کا دوام
وائے تمنائے خام ، وائے تمنائے خام!
پير حرم نے کہا سن کے مري روئداد
پختہ ہے تيري فغاں ، اب نہ اسے دل ميں تھام
تھا ارني گو کليم ، ميں ارني گو نہيں
اس کو تقاضا روا ، مجھ پہ تقاضا حرام
گرچہ ہے افشائے راز ، اہل نظر کي فغاں
ہو نہيں سکتا کبھي شيوہ رندانہ عام
حلقہ صوفي ميں ذکر ، بے نم و بے سوز و ساز
ميں بھي رہا تشنہ کام ، تو بھي رہا تشنہ کام
عشق تري انتہا ، عشق مري انتہا
تو بھي ابھي ناتمام ، ميں بھي ابھي ناتمام
آہ کہ کھويا گيا تجھ سے فقيري کا راز
ورنہ ہے مال فقير سلطنت روم و شام