کاش خود ہی تعمیر کرلو میں دنیا اپنی
پھر اس میں ہر سو زندگی کا ساز بن جاؤں
کاش نہ رہے زندگی کو کوئی گلا حقیقت کا
خود کو خوابوں میں بھرنے کا وہ انداز بن جاؤں
کاش کوئی خواب میری آنکھوں میں قید نہ رہے
میں ان بے زباں قیدیوں کی آواز بن جاؤں
کاش کوئی غم بھی میرے چراغوں کو بجھا نہ سکے
میں اندھیروں میں اجالوں کا راز بن جاؤں
کاش قسمت میرے در پہ اس طور دے دستک فضۂ
میں خوابوں سے رنگ آسماں کی پرواز بن جاؤں
Ghazal No 2
نہیں معلوم بکھریں گے کےسمٹیں گے
سمندر کی طرح ہم کو بے حساب رہنے دو
جلا دو سبھی ورک میری کہانی سے تم
بس دست آرزو کا ایک باب رہنے دو
مت ڈراؤ ہم کو وقت کی ہواؤں سے
ہم پر سے قید کے عذاب رہنے دو
پرندوں کو اڑنے سے ہے مطلب اپنا
ہماری فطرت کے یہ ادب رہنے دو
اڑنے دو فضۂ کو آزاد ہواؤں میں
اس کی زندگی کو خواب رہنے دو
Ghazal no 3
شب تاریک میں جب زمانے سو جاتے ہیں
سو ہم اپنے کسی زمانے میں کھو جاتے
وہ زمانے جو کبھی بیتے نہیں ہم پر
ہم کو اپنے رنگوں میں بھگو جاتے ہیں
جلاتے ہیں جہاں حسرتوں کے دیپ رات بھر
ہمارے اٹھتے ہی وہاں ویرانے ہو جاتے ہیں
کون سمجھے گا فضۂ ان فسانوں سی باتوں کو
خود کو بتانے میں اکثر ہی ہم رو جاتے
Ghazal no 3
ایک دن کبھی ایسا ہو
طے کروں میں یوں سفر
مجھے اس طرح سے رہائ ہو
میں جھوم اٹھوں سب بھول کر
یوں ہی جھومتے جھومتے کبھی ہوش میں
گھماؤں جب میں ہر طرف نظر
حیران ہوں کہاں ہوں میں
کس کا ہے یہ حسیں شہر
کہاں جائے مجھے یہ پیام ہے
اک محل یہاں آپ کے نام ہے
جب کھولوں میں اس کس قدر
حسیں ہو وہ پھر اس قدر
کہ میں پوچھ لوں دربان سے
یہ کس کا ہے وہ ہے کدھر
کوئی کہے مجھے یوں کان میں
آپ ملکہ ہو یہ ہے کہ قصر