کبھی اس کو
بھی ایسا لگے
کہ ! میں اس
کی گلیوں میں
پھر سے پلٹ کر
آگیا ہوں
وہ
مجھے دیکھنے کے
لیے سرپٹ اٹھ کر
بھاگے لیکن !ایک ہی
ٹھوکر سے اس کی
آنکھ کھل جاے
وہ
اپنی اس بےخودی پر
خود ہی شرما جاے
میری طرح وہ
بھی مجھے دیکھ
نہ پاے
بستر کی بے ترتیب
شکنوں سے خود ہی سوال
کرے،پھر کچھ بھی جواب
نہ پاے
آنکھوں سے نیند کوسوں
دور
بھاگ جاے
تب
وہ بھی میری طرح
اپنی اس بےچینی کو
سو سو نام دے
مطلب جدائی کا
اس سانحے سے
خود ہی
سمجھ جاے
گلزیب انجم