کبھی انسان کا بننا خدا اچھا نہیں ہوتا
جنابِ شیخ سے کہہ دو اُنہیں سجدہ نہیں ہوتا
بجھا دیتے ہیں وہ مکتب دلوں کی روشنی جن میں
"عصائیں" لاکھ ہوتی ہیں، یدِ بیضا نہیں ہوتا
کہا مجھ سے قلندر نے سمجھ آسان سا نکتہ
غمِ جاناں ہو جس دل میں، غمِ دنیا نہیں ہوتا
تلاطم خیز موجوں میں اترنا ہے بکھرنا ہے
جہادِ زندگی صاحب لبِ دریا نہیں ہوتا
قلم پکڑو، جگر تھامو، کہو دل کی، سنو دل کی
نہ ہو جب تک جنوں کامل، سخَن پختہ نہیں ہوتا
نہ ہے رہزن کا ڈر ہم کو نہ رہبر کی تمنا کچھ
وہاں سے ہم گزرتے ہیں جہاں رستہ نہیں ہوتا
ہمیں ہے نالہِ بلبل سبَق محفل گدازی کا
جگر خوں کر نہیں سکتا، جو دل ٹُوٹا نہیں ہوتا
فقیروں کی صدا سُن لے، مُنیبِؔ با وفا سُن لے
ہر اِک دَر پر نہیں رکھنا، کہ دل پیالہ نہیں ہوتا