کبھی جو چشم پوشی ہی غمِ انساں سے ہوتی ہے
غضب کا وہ سبب بنتا نہ نیّا پار لگتی ہے
زمیں والوں پر کوئی بھی ترحّم کی نظر کرتا
اسی پر رحمتوں کی ہی کبھی بوچھار پڑتی ہے
کسی مظلوم کی تو آہ سے بچنا ضروری ہے
کوئی مظلوم کی تو آہ سب برباد کرتی ہے
تجھے اے دل خرد سے کوئی مطلب ہو نہیں سکتا
کہ تیرے حوصلے کے سامنے اس کی نہ چلتی ہے
یہ پروانے حضورِ شمع جو خود کو مٹاتے ہیں
خرد کے پاس تو دیوانگی ایسی نہ ملتی ہے
وہ تو راہِ وفا میں نہ قدم بھی رکھ ہی سکتا ہے
خرد کے ہی تو تابع زندگی جس کی ہی رہتی ہے
یہی ہے اثر کی خواہش کہ دل اس کا مٌصفّا ہو
یہی گٌن زندگی میں ہو تو رفعت اس سے ملتی ہے