کبھی دل طولِ غم سے ہی تو کیوں گھبرا بھی جاتا ہے
کبھی ایسا ہوا کہ رات ہو اور دن نہ آتا ہے
کبھی کچھ دے بھی دیتا ہے کبھی کچھ چھین لیتا ہے
یوں ہی بندوں کو اپنے وہ کبھی تو آزماتا ہے
کوئی نہ آزمائش سے کبھی تو بچ بھی پائے گا
اسی کے جال سے نہ تو کوئی بھی بچ ہی پاتا ہے
مصیبت اور راحت میں تو تسلیم و رضا ہی ہو
یہی گٌن زندگی میں ہو تو یہ رفعت دلاتا ہے
زمانہ روٹھ بھی جائے تو اس کا غم نہیں کوئی
کہ ہم سے ہی زمانہ ہے وہ ہم سے خوف کھاتا ہے
کبھی نہ سانچ کو تو آنچ آئے یہ یقینی ہے
رہیں جو حق پہ ہی قائم تو باطل ٹوٹ جاتا ہے
کسی کا بھی زیاں نہ ہو یہی ہے اثر کی کوشش
کسی کا ہو زیاں یہ تو کبھی نہ اس کو بھاتا ہے