کیف کب جام و سبو سے شغل فرمانے میں ہے
حاصلِ مستی تو میرے دل کے پیمانے میں ہے
وہ کہاں عیش و طرب کی محفلوں میں ہے بھلا
جو مزہ راہِ خدا میں دل کو تڑپانے میں ہے
کیا سناؤں میں کسی کو اپنے غم کی داستاں
کب کسی کے دل کی تسکیں میرے افسانے میں ہے
سربلندی کی تمنا ہے تو اتنا یاد رکھ
سربلندی اُن کے در پہ سر کے جھک جانے میں ہے
ہر نَفَس تارِ نَفَس سے یہ صدا سنتا ہوں میں
اور کتنی دیر فیصلؔ اُن کے مل جانے میں ہے