خالی دریا سے جو غازی تیرا رہوار آیا
یاد شبیر کو لشکر کا علمدار آیا
ہاے مشکیزوں کو تھامے ہوے بچے بولے
پانی آیا ناہی دریا سے علمدار آیا
باندھ کر لاے تھے رسسی سے ہاتھ زینب کے
ہاے زنجیروں میں جکڑا ہوا بیمار آیا
ہاے زندان کے تاریکی میں دم توڑ گئی
دمے رخصت ناہی بابا نہ علمدار آیا
جل گئے خیمے تو کربل میں اندھیرا چھایا
رات پہرے کے لیے حیدر کرار آیا
وہی حقدار شفاعت نبی پاک ہوا
جو بھی مجلس میں تیرا بنکے عزادار آیا
کیسے رک جائے بھلا قمبر عزاداری یہ
پرسہ لینے کے لیے عابد بیمار آیا