بلندیوں کی چاہ میں وہ کچھ اسطرح گرا
ضمیر اپنے ہی بوجھ تلے دب کر مر گیا
احساس جرم و ندامت نہ ہو سکا اسے
حلال وحرام کا فتوا دیتے کوئی تھک گیا
جس دیس کو اپنی دھرتی ماں کہا اسنے
اسی دیس سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔غداری کر گیا
اپنے نفس پرپا لیا جس نے قابو
مقام بشریت سے اگے نکل گیا
فطرت انسانی بھی کتنی عجیب ہے ثمینہ
جس تھالی میں کھایا سوراخ اسی میں کر گیا