کسی سے پھر محبت ہو رہی ہے
مجھے خود پر ندامت ہو رہی ہے
یہاں پر وہ خموشی ہے کہ یارو
سماعت کو اذیت ہو رہی ہے
مجھے کھو کر بہت بے چین ہو تم
مجھے یہ سن کے حیرت ہو رہی ہے
مرے اجداد کو کوئی خبر دے
کہ مجھ پر پھر حکومت ہو رہی ہے
بہت بے چین ہیں بستی کے رستے
بڑی تیزی سے ہجرت ہو رہی ہے
بہاروں میں گریباں ہیں سلامت
جنوں میں کیسی بدعت ہو رہی ہے