کسی کی یاد کا پیاسا دکھائی دیتا ہے
نئے مکان سے دریا دکھائی دیتا ہے
ہمیں تو خیر اگلنے کی زہر عادت ہے
یہ تو تو بھوک کا مارا دکھائی دیتا ہیے
وہ جس نے مجھ کو سکھایا تھا فن صداقت کا
میں سچ کہوں تو وہ جھوٹا دکھائی دیتا ہے
یتیم بچے سے پوچھو کبھی کہ کیا اب تک
یہ شہر بھر تجھے اپنا دکھائی دیتا ہے
تیرا وجود تیری حمد ہے کہ جو دیکھے
ہر ایک روپ میں یکتا دکھائی دیتا ہے
تجھے خبر ہی نہیں یہ میری وراثت ہے
یہ اشک جو تجھے ادنیٰ دکھائی دیتا ہے
گلی کے انت میں سچا مزار سائیں کا
گلے کے سامنے کوٹھا دکھائی دیتا ہے