خیرالبشر کے اُمتی
ملتِ بیضا کے نوجوان
تو کہاں جا رہا ہے
تیرے قدموں نے خاروں کو گلزار بنایا
اور آج تو کیا ہے؟
آہ! حیف! افسوس ہے
پستی ونکبت کی سمت تیرا یہ سفر
نور سے ظلمت کی سمت
تو رواں دواں ہے کیوں
تیری تنزّلی کا ذکر کرتے کرتے
اقبال محو ِخواب ہوئے
رضا گئے سوئے عدم
ماضی نہ تو، اپنا بھُلا
چھوڑ کر تو، سُنتیں
پستی میں گرتا جائے گا
ظلمات کا لاریب! تو،
کردے گا سینہ چاک چاک
ہے تیرے پاس وہ شرر
ہے تیرے پاس وہ ہنر
اسلاف کی طرح تو،
یورپ کے کلیساوں میں
تکبیر کردے پھر بلند
تکبیر کردے پھر بلند