کل شب آئے انجم میرے آشیانے پر
دیکھ کر انہیں تعجب ہوا میرے ویرانے پر
کہا یوں تنہا پڑے ہو کیوں اے نیم جاں
اِس حالت میں بھی نہیں بیٹھا کوئی تمھارے سرہانے پر
لب سلے تو نہ دے سکے جواب کچھ مگر
چونک گئے وہ میرے خاموش اشک بہانے پر
اچانک اُٹھ کر ڈھونڈتے رہے وہ کسی کو ادھر اُدھر
مگر ملا نہ جواب کوئی بھی انہیں شور مچانے پر
مرے قدموں سے میرے پاس آکر بیٹھے جب وہ صاحب
روپڑے دیکھ کر میری تنہائی کے یارانے پر
جاں نکلنے تک تو یہ سُنا ہم نے جو کہا اُنہوں نے
عشق بھی روئے گا اب اپنے ویرانے پر