کمال کرتے ہو کبھی جمال کرتے ہو
تم کیوں نہیں تھوڑا خیال کرتے ہو
مل ہی جائے گی منزل کبھی نہ کبھی
منزل کا کیوں اتنا ملال کرتے ہو
دنیا کا رونا ہے دنیا کو رونے دو
دنیا کو کیوں جاں کا وبال کرتے ہو
گر اُس کا چہرہ ہے سرخ و سپید
تم کیوں تھپڑوں سے منہ لال کرتے ہو
رقیب وہ تمہارا رقیب اُس کے تم
رقابت میں کیوں دونوں بُرا حال کرتے ہو
پیغام اپنا بچے کے ہاتھ کبھی کبوتر کے منہ میں
ساجد کیوں نہیں اُسے ڈائریکٹ کال کرتے ہو