جا نے کیسا کال پڑا ہے
جگنو بھی تو جل چکا ہے
میرے نگر تک آنے وا لا راستہ
تیتلیو ں تک کو بھول گیا ہے
جا نے کیسا کال پڑا ہے
جا نے کیسا کال پڑا ہے
سرخ کہساروں کی رنگت ہے
زرد ذرد ہیں باغ بھی سارے
میرا نگر تو یوں اجڑا ہے
جا نے کیسا کال پڑا ہے
جا نے کیسا کال پڑا ہے
مو ت کے قہقے چاروں جانب
ہر سوں ویرا نی کی ہنسی
د یکھو تو میرا شہر سجا ہے
جا نے کیسا کال پڑا ہے
جا نے کیسا کال پڑا ہے
کچھ اتنا آج وقت کڑا ہے
میرے شہر کا ہر اک بچہ
بچپن تک کو بھول گیا ہے
جا نے کیسا کال پڑا ہے
جا نے کیسا کال پڑا ہے