کوئی بھی امتحاں سے ذرا بھی بچ نہ پائے
کہ فطرت کے ہی آگے سبھی نے سر جھکائے
جو ہے لاٹھی خدا کی نہ ہو آواز اس میں
وہ اربابِ ستم کے کبھی چولیں ہِلائے
خدا گنجے کو ناخن نہ دے یہ ہے ہی بہتر
کوئی بھی نا اہل ہو وہ تو طوفان لائے
ملے صحبت بھلی بس یہی پیش نظر ہو
بھلی صحبت ملے تو بھلے گن بھی تو آئے
لکھا قسمت کا جو ہے وہ تو مل کر رہے گا
کبھی بھی زندگی میں اداسی نہ ہی چھائے
کوئی ہو با ادب تو ملے عزت اسی کو
جو کوئی بے ادب ہو اسے ذلت ستائے
ہمارا میکدہ بھی تو ہے سب سے نرالا
کوئی جامِ محبت تو پی کر جھوم جائے
یہی کوشش رہے گی اثر کی بس ہمیشہ
نظر ہو سب پہ یکساں سبھی کے دل کو بھائے