کوئی جذبہ ادھورا رہ گیا ہے
دسمبرآنسوئوں میں بہہ گیا ہے
یہ دل خاموش ہو کر رہ گیا ہے
نا جانے آج وہ کیا کہہ گیا ہے
یہ آنکھیں ہیں ہماری کتنی گہری
سمندر میں سمندر بہہ گیا یے
تمہارے ساتھ وابستہ تھا سب کچھ
سواَےَ یاد کے کیا رہ گیا ہے
پلٹ کر دیکھنے پر ہم نے جانا
دل نادان کیا کیا سہہ گیا ہے
بہت بھیڑ ہے بازاروں میں لیکن
تیرا ارشد اکیلا رہ گیا ہے۔