کوزہ گر چاہے تو پھر کیا کیا ہوں میں
ورنہ اس کے ہاتھ میں گارا ہوں میں
بند گلیوں کی طرح سنسان ہوں
دوستوں کے واسطے رستہ ہوں میں
جس کے دروازے کی چابی کھو گئی
بند برسوں سے پڑا کمرہ ہوں میں
مجھ سے رکھیئے مت کوئ امید نو
آتی جاتی رت کا اک جھونکا ہوں میں
ہوں تو میں پانی کا ہی قطرہ مگر
درد بن کے آنکھ سے رستا ہوں میں
موم ہوں جو خود پگھل کے بہہ رہی
دوسروں کے واسطے شعلہ ہوں میں
دیکھ وہ جو ہیں ستارے ساتھ ساتھ
ایک تارہ تو ہے اک تارہ ہوں میں