سنو یارو تم بھی افسانہَ ء درویش
کوُہسارِ پارکر میں بھی رہا ہے آستانہَ ء درویش
چند راتیں آئی نہ نید مجھے
چند روز میں اُداس رہا
چند نئے بنے احباب میرے
چند کیلئے میں خاص رہا
کچھ اہلِ پارکر سے ربط آشنائی ہوئی
اور چند نے رکھی لاگ بنائی ہوئی
کچھ احساس مجھے بھی دنیا کا ہوا
کچھ یوں بھی میری رہنمائی ہوئی
کوئی رہا یوں ہی دیوانہَ ء درویش
کیا کیا سناؤں تمہیں افسانہَ ء درویش
یاد ہے مجھے وہ درختِ نیم جس کی چھاؤں میں
ہر روز محفل سجایا کرتے تھے
وہ شبِ اَفروز یار
جن کے ہم ناز اٹھایا کرتے تھے
وہ پوڑن واہ کی ہوائیں کیا کہنا
اہلِ کُوہسارِ پارکر کی ادائیں کیا کہنا
جابجا ہم نے شُہرت تو پائی مگر
کچھ ہمیں بھی ملی وہاں سزائیں کیا کہنا
کوئی سمجھا کوئی نہ سمجھا قرینہَ ء درویش
کیا کیا سناؤں تمہیں افسانہَ ء درویش
وہ نمبارو کی حسینہَ
جیسے کوہِ نور کا نگینہَ
زندگی تو تھی اپنی یارو
جیسے سراب میں ہو سفینہَ
وہ ادائیں، وہ لوگ، وہ الفت ہائے
وہ باغ، وہ پہاڑ ، مگر چھوڑ آیا
کوُہسارِ پارکر میں اک درویش
وہ درخت، وہ یار، وہ نگر چھوڑ آیا
وداعی جلسہَ میں رو دیے یارانہَ ء درویش
کیا کیا سناؤں تمہیں افسانہَ ء درویش