کِسے ہجر کے ہم فسانے سنائیں
تیری یاد آئے تو سب بھول جائیں
یہ کیوں اجنبی بن کے پھرتے ہیں ہم تم
تعلق اگر ہے ، تو اُس کو نبھائیں
رہو تم سدا سائبانِ دعا میں
ہمیشہ رہیں دُور تم سے بلائیں
کِھلے جا رہے ہیں ، کِھلے جارہے ہیں
شگوفوں سے کیا کہہ رہی ہیں ہوائیں
حقیقت اُسے کون سمجھائے جا کر
مرے نام ہی لکھ دو ساری جفائیں
ہر اک دل گرفتہ ، ہر اک آنکھ نم ہے
مرے شہر کی رو رہی ہیں فضائیں
ڈھلے دن تو اکثر تیری یاد آئے
صدفؔ ہم چراغِ محبت جلائیں