کٹ ہی گئی پڑھائی بھی، یہ کب ہُوا کہ مَر گئے
تیرے پرچے گُزر گئے، میرے بھی پرچے گُزر گئے
اُٹھتے جو سنگ آفتاب کے، دَرشن فقط کِتاب کے
اغیار یہ کہنے لگے، شاید کہ ہم سُدھر گئے
نہ دوستوں سے گُفتگو، نہ گھُومنے کی آرزُو
لے کے کتاب کُو بہ کُو، دُنیا سے بے خبر گئے
بیٹھے جو امتحان میں، جانے تھے کِس دھیان میں؟
“پرچی“ کدھر چلی گئی، جانے پھرّے کیدھر گئے؟
پرچہ جو آیا سامنے، ہم دِل کو لگے تھامنے
جواب جو کہ یاد تھے، میموری سے اُتر گئے
جو دوست میری آس تھے، وہ خُود ہی سب اُداس تھے
جواب جو کہ پاس تھے، وہ خُود بَخُود بِکھر گئے
پھر دِل سے لے کر رب کا نام، فریاد کی ہم نے تمام
کھُلنے لگا پھر ذہن جب، سوچا یونہی ہم ڈَر گئے
کوئسچنز لگنے لگے آساں، اور ہوگیا قلم رواں
جو چوائس پہ تھے چھوڑنے، ہم وہ سوال بھی کر گئے
مُمتحن کی خیر ہو، کاہے کو ہم کو بَیر ہو
سرور کو پاس کر دیا، ہم شاداں اپنے گھر گئے