ہم نے تو یہ کہا تھا کہ خط لکھنا
کب کہا تھا کہ نظم لکھنا یا افسانہ لکھنا
برسوں سے کہہ رہے ہو جو بات اب نہ وہ کہنا
لکھنا تو اب کی بار نیا کوئی بہانا لکھنا
سرد راتوں میں بہل جائے جس سے دل
لکھنا تو ایسا کوئی ترانہ لکھنا
کیوں لکھ نہ پائے محبت نہیں یا فرصت نہ تھی
کیسے بدلے ہو مزاج اپنا وہ کارنامہ لکھنا
قسم سے تڑپ رہے ہیں تیرے انتظار میں
اب آ جانا نہ آنے کا نہ بہانا لکھنا
کس نے چاہ لیا ہے تجھے مجھ سے بڑھ کر
اُس کا نام و پتہ لکھنا ٹھکانہ لکھنا
ہم چاہا کر بھی نہ بھول پائے تیرا انداز تخاطب
وہ تیرا قاضی جی میاں جی اور کبھی میانہ لکھنا
اگرچہ ممکن نہیں پھر بھی کہتے ہیں تجھے زیب
چھوڑ دو اب تم بھی جانم لکھنا وہ جانِ جاناں لکھنا