کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا
دل کہاں کہ گم کیجے ہم نے مدعا پایا
عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا
درد کی دوا پائی درد بے دوا پایا
دوست دار دشمن ہے اعتماد دل معلوم
آہ بے اثر دیکھی نالہ نارسا پایا
سادگی و پرکاری بے خودی و ہشیاری
حسن کو تغافل میں جرأت آزما پایا
غنچہ پھر لگا کھلنے آج ہم نے اپنا دل
خوں کیا ہوا دیکھا گم کیا ہوا پایا
حال دل نہیں معلوم لیکن اس قدر یعنی
ہم نے بارہا ڈھونڈا تم نے بارہا پایا
شور پند ناصح نے زخم پر نمک چھڑکا
آپ سے کوئی پوچھے تم نے کیا مزا پایا
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب
ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا
بے دماغ خجلت ہوں رشک امتحاں تا کے
ایک بیکسی تجھ کو عالم آشنا پایا
خاک بازی امید کارخانۂ طفلی
یاس کو دو عالم سے لب بہ خندہ وا پایا
کیوں نہ وحشت غالب باج خواہ تسکیں ہو
کشتۂ تغافل کو خصم خوں بہا پایا
فکر نالہ میں گویا حلقہ ہوں ز سر تا پا
عضو عضو جوں زنجیر یک دل صدا پایا
شب نظارہ پرور تھا خواب میں خیال اس کا
صبح موجۂ گل کو نقش بوریا پایا
جس قدر جگر خوں ہو کوچہ دادن گل ہے
زخم تیغ قاتل کو طرفہ دل کشا پایا
ہے مکیں کی پا داری نام صاحب خانہ
ہم سے تیرے کوچے نے نقش مدعا پایا
نے اسدؔ جفا سائل نے ستم جنوں مائل
تجھ کو جس قدر ڈھونڈا الفت آزما پایا